تحریر:محمد یاسر محمود صدیقی
فیض صاحب کے بعد احمد فراز نے شاعری میں اپنا لوہا منوایا فراز صاحب جشن آزادی کے موقع پر کہتے ہیں جہاں میرا دل آزادی کے موقع پر خوش ہے وہاں ساتھ ہی ملکی بدحالی دیکھ کر آنکھوں میں آنسو ہیں سب سے پہلے فراز صاحب سقوط ڈھاکہ پر اپنے دکھ کا اظہار کتے ہیں مشرقی پاکستان نے اپنا نام بنگلہ دیش رکھ لیا دنیا میں ایک ہی نام کے کئی دو ملک ہیں بنگلہ دیشن اپنا نام مشرقی پاکستان رکھ لیتا تو کم از کم نام پاکستان کا احترام ہوجاتا اور دشمن کو ہنسی کا موقع نہ ملتا دنیا میں شمالی افریقہ اور جنوبی افریقہ بھی تو ہیں فراز صاحب دکھ کا اظہار یوں کرتے ہیں ۔
اب کس کا جشن مناتے ہو
اس دیس کا جو تقسیم ہوا
اب کس کا گیت سناتے ہو
اس تن من کا جو دو نیم ہوا
قائد اعظم پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے یہ قائد کا خواب تھا ان کا خواب چکنا چور دیکھ کر فراز نے دکھ کی آوازیں نکالی۔
اس خواب کا جو ریزہ ریزہ
ان آنکھوں کی تقدیر ہوا
اس نام کا جو ٹکڑے ٹکڑے
گلیوں میں بے توقیر ہوا
فراز صاحب بلوچستان میں پاکستانی جھنڈے کی بے حرمتی اور صوبائی علاقائی تعصب یوں بیان کرتے ہیں۔
اس پرچم کا جس کی حرمت
بازاروں میں نیلام ہوئی
اس مٹی کا جس کی حرمت
منسوب عدو کے نام ہوئی
فراز صاحب کو ہاری ہوئی جنگوں کا دکھ ہے اور ان کا اظہار کچھ ہوں ہے
اس جنگ کا جو تم ہار چکے
اس رسم کا جو جاری بھی نہیں
اس زخم کا جو سینے پہ نہ تھا
اس جان کا جو واری بھی نہیں
فراز صاحب جشن آزادی کے موقع پر اپنے نوحہ میں مشرقی اور مغربی تہذیت کا ذکر بھی کرتے ہیں ان کا کہنا ہے مشرقی تہذیب سے ہم دور ہورہے ہیں جو حیا اور روحانیت کی تہذیب ہے ہم لوگ مغربی تہذیب کے پیچھے جارہے ہیں جو فحاشی امور مادہ پرستی کی تہذیب ہے فراز اپنا درد کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔
اس مشرق کا جس کو تم نے
نیزے کی انی مرہم سمجھا
اس مغرب کا جس کو تم نے
جتنا بھی لوٹا کم سمجھا
فراز صاحب نے خواتین کو پاکستان میں بے حرمتی اور ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر اظہار دکھ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مسیحا سمجھنے والے لوگوں کا کردار بھی پیش کیا مسیحا کی بات آئی تو مجھے ہڑتالی مسیحا یاد آگئے مریض تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں اور ڈاکٹر مسیحا ہڑتال پر ڈٹے ہوئے ہیں
اس مریم کا جس کی عفت
لٹتی ہے بھرے بازاروں میں
اس عیسٰے کا جو قاتل ہے
اور شامل ہے غم خواروں میں
آخر میں فراز صاحب جشن آزادی میں شامل ہونے کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں
آنکھوں میں چھپائے اشکوں کو
ہونٹون پہ وفا کے بول لیئے
اس جشن میں شامل ہوں میں بھی
نوحوں سے بھرا کشکول لیئے
فیض صاحب کے بعد احمد فراز نے شاعری میں اپنا لوہا منوایا فراز صاحب جشن آزادی کے موقع پر کہتے ہیں جہاں میرا دل آزادی کے موقع پر خوش ہے وہاں ساتھ ہی ملکی بدحالی دیکھ کر آنکھوں میں آنسو ہیں سب سے پہلے فراز صاحب سقوط ڈھاکہ پر اپنے دکھ کا اظہار کتے ہیں مشرقی پاکستان نے اپنا نام بنگلہ دیش رکھ لیا دنیا میں ایک ہی نام کے کئی دو ملک ہیں بنگلہ دیشن اپنا نام مشرقی پاکستان رکھ لیتا تو کم از کم نام پاکستان کا احترام ہوجاتا اور دشمن کو ہنسی کا موقع نہ ملتا دنیا میں شمالی افریقہ اور جنوبی افریقہ بھی تو ہیں فراز صاحب دکھ کا اظہار یوں کرتے ہیں ۔
اب کس کا جشن مناتے ہو
اس دیس کا جو تقسیم ہوا
اب کس کا گیت سناتے ہو
اس تن من کا جو دو نیم ہوا
قائد اعظم پاکستان کو اسلامی فلاحی مملکت کے طور پر دیکھنا چاہتے تھے یہ قائد کا خواب تھا ان کا خواب چکنا چور دیکھ کر فراز نے دکھ کی آوازیں نکالی۔
اس خواب کا جو ریزہ ریزہ
ان آنکھوں کی تقدیر ہوا
اس نام کا جو ٹکڑے ٹکڑے
گلیوں میں بے توقیر ہوا
فراز صاحب بلوچستان میں پاکستانی جھنڈے کی بے حرمتی اور صوبائی علاقائی تعصب یوں بیان کرتے ہیں۔
اس پرچم کا جس کی حرمت
بازاروں میں نیلام ہوئی
اس مٹی کا جس کی حرمت
منسوب عدو کے نام ہوئی
فراز صاحب کو ہاری ہوئی جنگوں کا دکھ ہے اور ان کا اظہار کچھ ہوں ہے
اس جنگ کا جو تم ہار چکے
اس رسم کا جو جاری بھی نہیں
اس زخم کا جو سینے پہ نہ تھا
اس جان کا جو واری بھی نہیں
فراز صاحب جشن آزادی کے موقع پر اپنے نوحہ میں مشرقی اور مغربی تہذیت کا ذکر بھی کرتے ہیں ان کا کہنا ہے مشرقی تہذیب سے ہم دور ہورہے ہیں جو حیا اور روحانیت کی تہذیب ہے ہم لوگ مغربی تہذیب کے پیچھے جارہے ہیں جو فحاشی امور مادہ پرستی کی تہذیب ہے فراز اپنا درد کچھ یوں بیان کرتے ہیں۔
اس مشرق کا جس کو تم نے
نیزے کی انی مرہم سمجھا
اس مغرب کا جس کو تم نے
جتنا بھی لوٹا کم سمجھا
فراز صاحب نے خواتین کو پاکستان میں بے حرمتی اور ان کے ساتھ ہونے والی نا انصافیوں پر اظہار دکھ کرتے ہیں اور اپنے آپ کو مسیحا سمجھنے والے لوگوں کا کردار بھی پیش کیا مسیحا کی بات آئی تو مجھے ہڑتالی مسیحا یاد آگئے مریض تڑپ تڑپ کر مر رہے ہیں اور ڈاکٹر مسیحا ہڑتال پر ڈٹے ہوئے ہیں
اس مریم کا جس کی عفت
لٹتی ہے بھرے بازاروں میں
اس عیسٰے کا جو قاتل ہے
اور شامل ہے غم خواروں میں
آخر میں فراز صاحب جشن آزادی میں شامل ہونے کا اظہار کچھ یوں کرتے ہیں
آنکھوں میں چھپائے اشکوں کو
ہونٹون پہ وفا کے بول لیئے
اس جشن میں شامل ہوں میں بھی
نوحوں سے بھرا کشکول لیئے
0 Comments